جب یورپین فوجی کمیشن کے تحت مغل بادشاہ کے خلاف مقدمہ کی کارروائی ہوئی

اکبر شاہ ثانی کے گیارہ لڑکے اور چھے لڑکیاں تھیں۔ ظفر ان میں سب سے بڑے تھے۔ ظفر سے چھوٹے مرزا بابر اور ان سے چھوٹے مرزا جہاں گیر تھے جن کو اکبر شاہ ثانی ولی عہد بنانا چاہتے تھے۔ مغل بادشاہوں کا یہ دستور تھا کہ وہ اپنا ولی عہد اور جانشیں اس شہزادے کو مقرر کرتے تھے جسے وہ اس کا اہل سمجھتے تھے یا اسے وہ پسند کرتے تھے۔

کسی شہزادے کا محض فرزندِ اکبر ہونا ولی عہدی کی ضمانت نہیں تھا۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے سے جب مغل بادشاہ انگریزوں کے پینشن خوار ہو گئے تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اکبر شاہ ثانی سے ولی عہدی کے انتخاب کا حق بھی چھین لیا۔ چناں چہ اکبر شاہ ثانی کی ایک بیگم ممتاز محل نے، جو مرزا جہاں گیر کی والدہ تھیں، جب مرزا جہاں گیر کو ولی عہد نامزد کرانے کی کوشش کی تو انگریزوں نے ان کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ وہ اکبر شاہ ثانی کے فرزندِ اکبر مرزا ابو ظفر ہی کو ولی عہدی کا حق دار سمجھتے تھے اور بالآخر وہی ولی عہد نامزد ہوئے۔

بہادر شاہ ظفر کے والد اکبرثانی کا انتقال ۱۸۳۷ء کو ہوا اور اس کے ساتھ بہادر شاہ ظفر تخت نشیں ہوئے۔ ۱۸۵۷ء میں جو خلفشار بپا ہوا اس نے نہ صرف بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا بلکہ پوری مغل سلطنت ہی کی بساط الٹ کر رکھ دی۔ اس طرح بہادر شاہ ظفر کی مدتِ بادشاہت صرف بیس سال رہی۔

بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں لال قلعے کا جو تہذیبی رنگ روپ تھا، جو معمولاتِ شاہی تھے، قلعے کے جو محکمے تھے، جو سلسلہ داد و دہش تھا، جو ٹھاٹ باٹ تھے اس پر لا تعداد مرقعے تالیف ہو چکے ہیں لہذا اس تفصیل میں یہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر نے مغلوں کی ان شاہی رواداریوں کو جو ایک گنگا جمنی مزاج کی حامل تھیں سخت مالی دشواریوں سے گزرتے ہوئے بھی نبھایا۔ انھیں کمپنی کی طرف سے صرف ایک لاکھ روپے ماہانہ پنشن ملتی تھی جس میں سے ان کی طرف سے مغلیہ خاندان کے ان افراد کے وظیفے بھی مقرر تھے جو لال قلعے کے مکین تھے۔ اس کے علاوہ دربار داری کا ترک و احتشام اور شاہی ٹھاٹ باٹ علاحدہ۔ چناں چہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے انھیں طرح طرح کے جتن کرنے پڑتے تھے۔ شہر کے مہاجنوں سے قرض لینا، ذاتی اراضیوں کو فروخت کرنا یا رہن رکھنا وغیرہ۔

جب انگریزوں نے شاہ عالم ثانی کو کمپنی کا پنشن خوار بنا کر لال قلعے میں بٹھایا یا تو گویا انھیں جہاں بانی کے بکھیڑوں سے آزاد کر دیا تھا۔ یا یہ کہیے کہ ایک طرح سے بے دخل کر دیا تھا۔ اب انھیں لال قلعے کی زیبائشی سپاہ کے علاوہ کسی فوجی انتظام و انصرام کی بھی ضرورت نہ رہی تھی اور نہ ان کے مالی وسائل میں اس طرح کے اخراجات اٹھانے کی کوئی طاقت ہی تھی۔ جہاں بانی کے بکھیڑوں سے بے دخلی کی وراثت شاہ عالم سے اکبر شاہ ثانی کو اور پھر بالآخر ظفر کو منتقل ہوئی۔ چناں چہ بہادر شاہ ظفر کا بھی یہ عالم تھاکہ وہ مغل حکومت کی بقا کے خواب تو دیکھ سکتے تھے لیکن وقت پڑنے پر بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی ان کے پاس اس کی حفاظت اور دفاع کا کوئی معقول سامان نہیں تھا، نہ قوتِ ارادی کی سطح پر اور مالی حیثیت سے۔

بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے اور یہ اعزاز پوری تحریک میں صرف انہی کے حصے میں آیا کہ ایسے حالات میں جب انگریز ساحل بنگال سے حشر برپا کرتے ہوئے جمنا پار کر کے دہلی تک پہنچ گئے تھے اور اس وقت گویا وہ شہنشاہِ دہلی کے حلق میں انگلیاں ڈالے کھڑے تھے تو بھی میرٹھ کی باغی فوج ۱۸۵۷ کو لال قلعے کی دیوار کے نیچے بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے بقول ظہیر دہلوی ( داستان غدر ) یہی کہتی ہوئی جمع ہوئی ‘حضور بادشاہ سلامت! آپ دین دنیا کے بادشاہ ہیں، آپ کو حق تعالی نے بائیس صوبوں کا مالک کیا ہے۔ تمام ہندوستان آپ کا محکوم اور فرماں بردار ہے، ہندوستان کی رعیت آپ کی رعیت میں شمار ہوتی ہے، ہم لوگ آپ کے پاس فریادی ہیں، امیدوارِ انصاف ہیں۔’

لیکن جیسا کہ کہا گیا کہ جہاں بانی کی ڈور تو ان کے ہاتھ سے کب کی ان کے دادا شاہ عالم ثانی کے زمانے ہی سے چھوٹ چکی تھی۔ ان کے پاس ملکی دفاع کے انتظام و انصرام کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لامحالہ بقول ظہیر دہلوی ان کا پہلا ردعمل اس یورش پر یہی ہونا تھا۔

‘میرے پاس خزانہ نہیں کہ میں تم کو تنخواہ دوں گا، میرے پاس فوج نہیں کہ میں تمھاری امداد کروں گا، میرے پاس ملک نہیں کہ تحصیل کر کے تمھیں نوکر رکھوں گا، میں کچھ نہیں کر سکتا ہوں، مجھ سے کسی طرح توقع استطاعت کی نہ رکھو۔’

۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے بھی بہت پہلے بہادر شاہ ظفر اپنے آپ کو جن لاچاریوں میں گھرا پاتے تھے اس کا منطقی نتیجہ بھی یہی تھا کہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد کرانے اور مغل سلطنت کو نیست و نابود ہونے سے بچانے کا، جس کے درپے انگریز کب سے تھے، ایک ہی راستہ تھا کہ وہ ۱۸۵۷ء کی یورش میں باغیوں کا ساتھ دیتے جو انھوں نے بالآخر کیا یا انہیں کرنا پڑا۔ اس میں ان کی طرف سے ابتدا میں جو تھوڑی رد و کد ہوئی وہ صرف اس لیے تھی کہ میرٹھ کی باغی فوج کا لال قلعے کی دیوار کے نیچے پہنچنا انھیں اولاً کوئی مقامی ہنگامہ معلوم ہوا جو انگریزوں کی طاقت کے مقابلے ان کے نزدیک ایک انتہائی نادانی کا اقدام تھا لیکن جلد ہی انھوں نے یہ باور کر لیا کہ یہ تو ایک ملک گیر تحریک تھی جو شاید وہ کام کر سکے جو ان کی معذور بادشاہت نہیں کر سکتی تھی۔ چناں چہ ایسے وقت میں جب انگریز کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی تھی باغی فوج کی قیادت قبول کرنا ظفر جیسے ضعیف العمر، لاچار اور کمزور بادشاہ کے لیے کوئی معمولی اقدام نہیں تھا اور اس اقدام کی سب سے اذیت ناک سزا بھی بالآخر پھر انھیں ملی۔

۱۸۵۷ء کی بغاوت نا کام ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کر کے شہر دہلی کے ایک مکان میں قید کر کے رکھے گئے۔ ان پر انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کر کے مقدمہ چلایا گیا۔ ان کے مقدمے کی کارروائی لال قلعے کے دیوان خاص میں عمل میں لائی گئی۔ یہ کارروائی یورپین فوجی کمیشن کے تحت کرنل ڈیوس کی صدارت میں ۲۷ جنوری ۱۸۵۸ء کو شروع ہوئی اور ۹ مارچ ۱۸۵۸ء کو یہ مقدمہ کمپنی کے حق میں اور بادشاہ کے خلاف فیصل ہوا۔ اس مقدمے میں جس بات پر بار بار زور دیا گیا اور جسے بالآخر ثابت بھی کر دکھایا گیا وہ یہی تھی کہ نہ صرف یہ کہ بادشاہ اس بغاوت میں پوری طرح ملوث تھے بلکہ بغاوت کے عمل میں آنے سے پہلے بھی باغیوں کے ساتھ ان کا ربط و ضبط تھا۔

(سہ ماہی ‘اردو ادب’ کے اداریے سے اقتباسات جس کی جمع و ترتیب کا کام اسلم پرویز نے انجام دیا)