سندھی ثقافت: محبت، روایت اور ہزاروں سالہ تہذیب کی پہچان

یہ دنِ ثقافت وہ لمحہ ہے جو سندھی لوگوں کے دلوں میں صرف سر، دُھن اور رنگ ہی نہیں بھرتا بلکہ ان کے وجود کو صدیوں پرانی تہذیب، ثقافت اور روایات سے ازسرِنو جوڑ دیتا ہے۔ جب بھی سندھی لوگ اجرک اوڑھتے ہیں، ٹوپی پہنتے ہیں، اپنی زبان میں بات کرتے ہیں، اپنی دھرتی سے محبت کا اظہار کرتے ہیں، تو یہ صرف ایک روایتی عمل نہیں ہوتا، بلکہ تاریخ سے ملاقات، تہذیب سے گفتگو اور اپنی شناخت کے ساتھ ایک نئے عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ سندھ کی یہ دھرتی، جو سندھو ماں کے نام سے جانی جاتی ہے، صرف مٹی نہیں بلکہ روحانی خوشبو ہے، جس میں انسانیت، محبت، برداشت اور سمجھ بوجھ کے خزانے بسے ہوئے ہیں۔ سندھی ثقافت کا دن وہ لمحہ ہے جب یہ سارے احساسات ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں اور انسان خود کو اس ہوا میں سانس لیتا محسوس کرتا ہے جو ہزاروں سال سے انسانوں کے دلوں کو سلامتی، بھائی چارے اور امن کا پیغام دے رہی ہے۔

سندھی ثقافت کا دن ظاہری طور پر تو صرف ایک تاریخ ہے، لیکن اپنی معنویت میں یہ صدیوں کے سفر کا نام ہے۔ یہ سفر موئن جو دڑو سے شروع ہوتا ہے، جہاں انسانی تہذیب کے اولین نقش ابھرے، جہاں انسانوں کے خیالات میں محبت بھی تھی اور نظم بھی، جہاں لوگوں نے اپنے ماحول، معاشرت اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک تعمیر کرنے والی قوم کی شکل اختیار کی۔ سندھ کی ثقافت نے اس دور سے آج تک اپنی خوبصورتی، عظمت اور روحانی حسن کو برقرار رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سندھی لوگ ثقافتی دن مناتے ہیں تو وہ صرف ماضی کو یاد نہیں کرتے، بلکہ اُس ماضی سے روشنی لے کر اپنے حال اور مستقبل کے لیے نیا راستہ تراشتے ہیں۔

سندھی لباس، ٹوپی، اجرک، گہنے، کڑھائیاں، لوک ادب، موسیقی، ڈرامہ، کہانیاں اور زبان—یہ سب انسان کے شعور سے جڑے ہوئے عناصر ہیں۔ اجرک کے سرخ اور نیلے رنگ صرف کپڑا نہیں بلکہ سوچ کا اظہار ہیں، تاریخ کا خلاصہ ہیں، ایک ایسا دستاویز ہیں جو صوفی پیغام، شاعروں کی تخلیق اور ہنرمندوں کی محنت سے بھری ہوئی ہے۔ جب کوئی سندھی شخص اجرک اوڑھتا ہے تو وہ خود کو ایک صدیوں قدیم ورثے سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ٹوپی اپنی سادگی میں ایک منفرد شان رکھتی ہے، جس کے نقش لوگوں کے دلوں میں اُسی طرح محفوظ ہیں جیسے کسی شاعر کے اشعار دل میں گھر کر لیتے ہیں۔

ثقافتی دن پر سندھ کے شہر، گاؤں، دیہات اور چوپڑیاں سب ایک ہی آواز میں ہم نوا ہو جاتے ہیں۔ گلیاں خوشبو سے مہک اٹھتی ہیں، نوجوان رقص کرتے ہیں، گویے اپنی دھرتی کی تاریخ کو گنگناتے ہیں، بچوں کے چہرے مسکراہٹوں سے بھر جاتے ہیں، اور لڑکیاں سندھی کڑھائی اور زیورات میں ایک حسین منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ ثقافت صرف ماضی کی چیز نہیں، آج بھی زندہ ہے، بھرپور حسن رکھتی ہے اور قابلِ فخر ہے۔

سندھ کی تہذیب کا سب سے بڑا حسن اس کی انسان دوستی ہے۔ شاہ لطیف، سچل سرمست، بیدل، بیدل فقیر اور دوسرے صوفی بزرگوں کا پیغام سندھی ثقافت کی بنیاد ہے۔ اس دھرتی کے لوگ محبت کو مذہب اور مروت کو اپنی دولت سمجھتے ہیں۔ ثقافتی دن اُن عظیم دانشوروں کی یاد کو تازہ کر دیتا ہے جنہوں نے اپنے کلام، فکر اور تعلیم سے انسانیت کی راہوں کو روشن کیا۔ شاہ لطیف نے اپنے بیتوں میں جس بردباری، صبر اور محبت کا درس دیا، وہی سندھی ثقافت کا اصل مرکز ہے، جو آج بھی دلوں میں روشنی بن کر موجود ہے۔

جب لوگ صوفیانہ کلام پر جھوم رہے ہوتے ہیں، شاہ کے رسالے کی سطور ہر طرف گونج رہی ہوتی ہیں، دھرتی رقص میں محو ہوتی ہے، تو ایسا لگتا ہے جیسے صدیوں پرانی تہذیب دوبارہ زندہ ہو رہی ہو۔ سندھی ثقافت کا دن انسان کو احساس دلاتا ہے کہ ایک قوم اپنی شناخت، زبان، ورثے اور فکر کو کس طرح زندہ رکھتی ہے۔ کبھی شاعروں کے اشعار زندہ رہتے ہیں، کبھی فنکاروں کے ساز سدا دیتے ہیں، اور کبھی لوگوں کی آنکھوں میں محبت کی چمک دکھائی دیتی ہے۔

سندھی ثقافت کا ایک بڑا حصہ عورتوں کے ہاتھوں کے ہنر میں پوشیدہ ہے۔ کڑھائی، سوئی دھاگہ، رلی بنانا، کپڑوں پر نقشنگاری اور روایتی زیورات—یہ سب عورتوں کی تخلیق، محنت اور محبت کی کہانی ہیں۔ یہ دن اُن ہاتھوں کو عزت دیتا ہے جو اس دھرتی کے ثقافتی ورثے کو نسلوں تک پہنچا رہے ہیں۔ جب ایک ماں اپنی بیٹی کو اجرک کے نقش سکھاتی ہے تو وہ صرف ہنر منتقل نہیں کرتی بلکہ تاریخ کا ایک باب اپنی اگلی نسل کے حوالے کرتی ہے۔

یہ دن دنیا کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ ثقافت انسانوں کو جوڑتی ہے، توڑتی نہیں۔ جب مختلف نسلیں، مذاہب، زبانیں اور برادریاں ایک لباس، ایک جشن اور محبت کے اظہار کے ذریعے ایک ہوتی ہیں تو دلوں کے فاصلے کم ہونے لگتے ہیں۔ سندھی ثقافت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ نفرت کو بڑھنے نہیں دیتی بلکہ محبت کے دریا کو ہمیشہ بہتا رکھتی ہے۔

سندھ کا تاریخی ورثہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں۔ گاؤں میں کبھی لوک داستانیں سنائی دیتی ہیں، کہیں کسی بوڑھی عورت کی زبان سے صدیوں پرانی کہانیاں نکلتی ہیں، جو سننے والے کے دل پر عجیب سا سحر چھوڑ جاتی ہیں۔ ثقافتی دن ان سب یادوں کو تازہ رکھتا ہے۔ چاندنی راتوں میں، مچ کی روشنی میں، سندھی لوگوں کے گیت اور کہانیاں صرف تفریح نہیں بلکہ ثقافت کے زندہ رہنے کی دلیل ہیں۔

سندھی ثقافت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے اصل سے جڑے رہیں، اپنی زبان کو زندہ رکھیں، اپنے اقدار کو مضبوط کریں، اپنی تاریخ یاد رکھیں اور اپنی دھرتی کی خوشبو دنیا تک پہنچائیں۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ ثقافت ہمیشہ اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب لوگ اسے فخر کے ساتھ اپناتے ہیں۔ ورنہ تہذیبوں کو مٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ خوش قسمتی سے سندھی لوگ اپنے ورثے سے اس قدر وابستہ ہیں کہ ثقافت کا ہر نقش دن بہ دن مزید روشن ہوتا جا رہا ہے۔

یہ دن سندھ کی موسیقی میں بھی نیا دم بھرتا ہے۔ ڈھول، یکتارا، نَین، الگوٗزہ—یہ سارے ساز جب مل کر بجتے ہیں تو فضا میں ایسا سُر پیدا ہوتا ہے جو روح کو چھو لیتا ہے۔ موسیقی ہر دور میں سندھی لوگوں کا ساتھی رہی ہے۔ غم میں بھی گیت، خوشی میں بھی گیت، جدائی میں بھی گیت، وصال میں بھی گیت—سندھی ثقافت کی رونق موسیقی سے اور بڑھ جاتی ہے۔ سندھیوں کی مہمان نوازی، محبت، مل جل کر رہنے کی روایت اور امن پسندی اس ثقافت کے بنیادی اجزا ہیں۔ ثقافتی دن ان تمام قدروں کی نمائندگی کرتا ہے۔

سندھی ثقافت کا دن یہ سبق بھی دیتا ہے کہ ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے صرف ایک دن کافی نہیں، بلکہ ہر دن ثقافتی ہونا چاہیے۔ جب محنت، ایمان داری، پیار، بھائی چارہ، سخاوت اور عزت زندگی کا حصہ بنتے ہیں تو ثقافت خود بخود زندہ رہتی ہے۔ سندھی لوگ ان ہی اقدار کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور انہیں اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرتے ہیں۔

سندھ کا مستقبل اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے ماضی سے روشنی لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ ثقافتی دن نوجوانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ جب تک زبان، لباس، رسم و رواج، کتابیں، موسیقی اور تہذیب محفوظ ہیں، قوم مضبوط ہے۔ یہ دن نوجوانوں میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی شناخت کو نہ بھولیں بلکہ اسے اور زیادہ شان سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ سندھی کلچر ڈے صرف جشن نہیں بلکہ ایک تحریک ہے—تہذیب کے تحفظ کی تحریک، محبت کے فروغ کی تحریک، علم و ادب کی تجدید کی تحریک، اور انسانی اتحاد کی تحریک۔ یہ دن یقین دلاتا ہے کہ اگر ثقافت مضبوط ہے تو قوم بھی مضبوط ہے۔ ثقافت صرف ناچ، گیت اور لباس نہیں بلکہ انسان کی زندگی کا مکمل فلسفہ ہے۔

سندھی ثقافت کے دن کا اصل جوہر اس محبت میں ہے جو لوگ ایک دوسرے کے لیے رکھتے ہیں، اس اجتماعی احساس میں ہے جو انہیں ایک قوم بناتا ہے، اس روایت میں ہے جو صدیوں پرانی وراثت کو آج تک سانس دے رہی ہے، اور اس روحانی بلندی میں ہے جو سندھی لوگوں کو دنیا کی ہر قوم سے منفرد بناتی ہے۔ آج جب سندھی کلچر ڈے منایا جاتا ہے تو یہ صرف جشن کا دن نہیں ہوتا بلکہ ایک علامتی گھڑی ہوتی ہے جب ایک قوم اپنے ماضی سے ملاقات کرتی ہے، اپنے حال کو سمجھتی ہے اور اپنے مستقبل کو روشن کرتی ہے۔ یہ دن ایک وعدہ ہے کہ سندھی تہذیب کا گیت نہ رکے گا، ثقافت کا دیا نہ بجھے گا، اور محبت کا پیغام ہمیشہ دلوں تک پہنچتا رہے گا۔